جدید عضویاتی اور جسمانی تحقیقات نے دماغ کے ان مقامات کو متعین کرلیا ہے جو متعینہ نفسیاتی اعمال انجام دیتے ہیں ان مقامات میں سب سے اہم وہ حرکاتی حصہ ہے جوجسم کے تمام اجزاء کی حرکت پر حاوی ہوتا ہے۔
دوسرا وہ حسی مقام ہے جو احساس لمس‘ احساس الم کے بعض عناصر‘ درجہ حرارت میں تغیرات اور ذوق کے احساس کی منتہا ہے۔ (اجزاء جسم کا ہر جز حرکاتی مقام اور حسی مقام دونوں میں نمائندہ ہوتا ہے۔) تیسرا بصری مقام وہ ہے‘ جو مرکز بصارت اور چشم سے نکلنے والی تمام نبضوں کی منتہا ہے اور پیشانی کے جوڑوں کا مقام جو پیشانی کے دونوں ٹکڑوں کے اگلے حصہ میں ہوتا ہے جہاں جسم کے مختلف اجزاء سے آنے والے پیغامات بامعنی احساسات کی شکل میں جمع ہوتے ہیں جسم کے مختلف اجزاء کیلئے صادر ہونے والے حرکت کے پیغامات مرتب و منضبط ہوتے ہیں اور ان تمام سرگرمیوں میں دخل انداز ہوتے ہیں جن پر دماغ کی حکمرانی ہے‘ نیز یہی مقام اعلیٰ عقلی اعمال مثلاً تعلیم‘ غوروفکر‘ بول چال‘ تحریر اور پڑھنے کا مرکز ہے۔
دماغ انسان کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ونگران ہوتا ہے اور انسان کی سرگرمی دماغ کے خلیوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور وہ اثر دماغ کے خلیوں میں اس طرح سے محفوظ ہوجاتاہے جس کی حقیقت تک ابھی علم کی رسانی نہیں ہوئی ہے دماغ کے خلیوں میں محفوظ ہوجانے والے یہی اثرات اعلیٰ عقلی اعمال جیسے تعلیم‘ تذکرہ‘ تخیل اور غوروفکر کیلئے بنیاد بنتے ہیں۔ اس حقیقت کی روشنی میں غالباً ہم قرآن کی ان آیات کی تشریح سمجھ سکتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کان‘ نگاہ‘ زبان اور جلد سب حساب کتاب کے دن لوگوں کے خلاف شہادت دیں گے۔ یہ شہادت کس طرح ہوگی اللہ ہی جانتا ہے لیکن چونکہ انسان کی تمام سرگرمیاں اس کے دماغ کے خلیوں میں ریکارڈ ہوجاتی ہیں تو ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ان خلیوں کوقوت گویائی عطا کردیںاور وہ اپنے ریکارڈ کی تمام چیزیں اسی طرح دوہرا دیں جس طرح کیسٹ ریکارڈ کی ہوئی تمام باتیں دہرا دیتی ہیں۔ جدید سائنسدانوں نے حافظہ کے معموں اور دماغ کے خلیوں میں انسانی تجربات کے ریکارڈ کا مطالعہ کیا‘ اس طرح کے ایک تجربہ میں ایک فردکے ایک مرکز کو بجلی کی لہروں سے چھیڑا گیا تو اس نے ایک موسیقی و نغمہ کی آواز سنی جو پہلے کبھی سن رکھی تھی‘ پھر دوسرے مرکز کو کرنٹ لگایا گیا تو ایک مخصوص منظر اسے نظرآیا جو پہلے اس نے کبھی دیکھا تھا۔ ان تجربات سے معلوم ہوا کہ انسانی تجربات اس کے دماغ کے خلیوں میں ریکارڈ ہوتے ہیں اور ان خلیوں کو مخصوص انداز میں چھیڑ کر قدیم واقعات انسان کو یاد دلائے جاسکتے ہیں۔ اس بنیاد پر حقیقت کا علم اللہ کے سپرد کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دماغ کے خلیوں کو گویائی عطا کردیں گے اور وہ ریکارڈ شدہ تمام اقوال و افعال دہرادیں گے اور انسان کو اپنے افعال و اقوال اس طرح یاد آجائیں گے گویا اس کی نگاہوں کے سامنے زندہ مناظر ہوں۔ ممکن ہے کہ کچھ دیگر وسائل کے ذریعہ بھی انسان کے اقوال و افعال ریکارڈ کیے جاتے ہوں اور دماغ کے خلیے متعدد وسائل میں سے ایک وسیلہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مختلف اعضاء جسم کے نسیجوں کے خلیے میں بھی ریکارڈ کا عمل انجام پاتا ہو جس کی حقیقت سے ابھی ہم ناآشنا ہوں۔ سورۂ فصلت 19سے 21 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: ترجمہ:۔ اور اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کیلئے گھیرے جائیں گے ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائیگا پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف گواہی دی ؟ وہ جواب دیں گے ہمیں اس خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے اس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو۔
سورۂ نور میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:۔ ’’وہ اس دن کو بھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے‘‘سورۂ یٰسین آیت 40 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:۔ ’’آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘دماغ کے اندر اربوں کی تعداد میں اعصابی خلیے ایک نسبتاً تنگ جگہ یعنی کھوپڑی میں موجود ہوتے ہیں‘ دماغ کی جھلی بیشمار نشیب و فراز پیدا کرتی ہے دماغی جھلی کی سطح فی الواقع اس قدر بڑی ہوتی ہے کہ اگر مسطح کرکے اسے بچھادیا جائے تو سولہ اسکوائر فٹ کی جگہ پر پھیل جائے گی۔ جھلی کا یہ رقبہ اور اس کے اندر اربوں کی تعداد میں اعصابی خلیے کیوں کر نہ انسان کی ایک ایک حرکت و عمل و قول و سرگرمی کو ریکارڈ کرسکتے ہیں۔ دماغ کی جھلی درحقیقت بہت بڑا رجسٹر ہے جس میں انسان کا ہر ہر عمل ریکارڈ ہوتا ہے اور غالباً یہ ان وسائل میں سے صرف ایک وسیلہ ہے جن میں اللہ نے اپنی حکمت سے انسانی اعمال و افعال کی ریکارڈنگ کا انتظام کررکھا ہے تاکہ قیامت کے دن انسان کے خلاف ثبوت ہو جس کا انکار وہ نہ کرسکے۔
سورۂ اسراء کی آیت 31سے 41 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ’’ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے‘ اور قیامت کے روز ہم اک نوشتہ اس کے لیے نکالیں گے جو وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا۔‘‘
پڑھ اپنا نامہ اعمال آج اپنا حساب لگانے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔ دماغ کے خلیوں میں انسانی اعمال کی ریکارڈنگ کے علاوہ دوسرا ایسا کوئی نظم بھی ہوسکتا ہے جو ایک بڑے اور عمومی رجسٹرڈ کی مانند ہو اور تمام لوگوں کے اعمال اس میں ریکارڈ ہوتے ہیں جیسا کہ بعض قرآنی آیات میں اس جانب اشارہ ملتا ہے۔ سورۂ زمر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ترجمہ: ’’زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی‘ کتاب اعمال لاکر رکھ دی جائے گی‘ انبیاء اور تمام گواہ حاضر کردئیے جائیں گے لوگوں کے ساتھ ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا‘ ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ حسی اعضاء مختلف محسوسات سے پیدا ہونے والی حسی تنبیہات سے متاثر ہوتے ہیں اور عصبی نبضیں اعصاب سے ہوکر دماغ میں مرکز احساس تک پہنچتی ہیں جس سے ادراک حسی وجود میں آتا ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں بعض اہم اعضاء حس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ادارک حسی کے ضمن میں آیت ہے کہ ’’ وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دئیے مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔‘‘ (المومنون 87)قرآن کریم نے انسان کی جلد میں الم کا احساس کرنے والے کچھ مخصوص اعضاء کے وجود کی طرف اشارہ کیا ہے اس طرح انسانی جلد میں خصوصاً ہاتھ کی انگلیوں میں حاسہ لمس کے وجود کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ’’جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا ہے انہیں ہم بالیقین آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اورفیصلوں کو عمل لانے کی حکمت خوب جانتا ہے۔ (نساء 52)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں